صرف جدوجہد کرنے والے کو ہی صحیح طور پر پتا ہوتا ہے کہ کامیابی کیلئے اس نے کس طرح خون پسینہ ایک کیا ہے لیکن کامیابی سے زیادہ لطف اندوز بھی وہی ہوتا ہے۔ سخت محنت کے بعد حاصل ہونے والی چیز کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔
انسان اگر کسی مقابلے میں منتخب ہوسکے یا وہ بڑی امیدوں اور ارمانوں سے کوئی چیز کسی کے سامنے پیش کرے اور اسے مسترد کردیا جائے۔ تو اس پر دل شکستگی اور مایوسی کا حملہ ہونا ایک فطری سی بات ہے لیکن اگر آپ ذرا بھی عقل سے کام لیں اور مدلل انداز میں سوچیں تو آپ کو ان کیفیات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا یا آپ ان پر غالب آنے کے قابل ہوجائیں گے۔ سب سے پہلے تو آپ اپنے آپ کو یہ یاد دلائیے کہ آپ دنیا کے پہلے انسان نہیں ہیں جس کی کوئی چیز مسترد کی گئی ہے یا جسے کسی کام کیلئے منتخب نہیں کیا۔ دنیا کی وہ بڑی بڑی نامی گرامی ہستیاں جن کے آج بات بات پر حوالے دئیے جاتےہیں وہ بھی ان مراحل سے ایک بار نہیں کئی کئی بار گزرچکےتھے۔ اگر ہم ان میں سے صرف دو کے بارے میں آپ کو بتائیں تو شاید آپ حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔
آپ کو معلوم ہے کہ ابراہام لنکن فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے بھرتی ہوا تھا لیکن جب وہ جنگ کے بعد واپس آیا تو اس کی ترقی کی بجائے تنزلی ہوچکی تھی‘ اسے رنگروٹ بنادیا گیا تھا اور اسے ازسر نو اپنے عہدے کیلئے جدوجہد کرنا تھی۔ اس کے بعد اس نے کاروبار کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں بھی ناکام رہا‘ وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کی کوشش کی‘ اس میں بھی اسے کامیابی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد وہ سیاست میں آیا لیکن قانون ساز مجلس کا رکن منتخب ہونے کے سلسلے میں اپنی پہلی کوشش میں ناکام رہا۔ اسے شکست ہوگئی پھر اسے کانگریس کے رکن کی حیثیت سے محض نامزد ہونے کے معاملے میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا اس کے بعد اس نے کمشنر کے عہدے کیلئے درخواست دی۔ وہ بھی نامنظور ہوگئی۔ 1854ء کے سینیٹ کے انتخابات میں بھی اس نے حصہ لیا مگر اس میں بھی ناکام رہا۔ 1858ء کے انتخابات میں بھی اسے ناکامی ہوئی۔ اس دوران میں اس نے ایک دوست کو خط میں لکھا: ’’میں شاید اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ قابل رحم انسان ہوں‘ تم اندازہ نہیں کرسکتے کہ اس وقت میرا دل کتنا دکھی ہے‘ اگر میرے غم کو تمام انسانوں میں برابر تقسیم کردیا جائے تو شاید کرہ ارض پر ایک چہرہ بھی مسکراتا ہوا دکھائی نہ دے‘‘لیکن یہی ابراہام لنکن آخر کار امریکہ کا ایک عہد ساز اور تاریخ ساز صدر بنا وجہ بہت سادہ سی تھی اس کا دکھ‘ غم اور دل شکستگی اپنی جگہ تھی لیکن اس نے جدوجہد ترک نہیں کی مایوس ہوکر ہتھیار ڈال کر نہیں بیٹھا۔
ونسٹن چرچل سکول کے زمانے میں چھٹے گریڈ میں فیل ہوگیا تھا سیاست میں آنے کے بعد وہ ہر انتخاب میں مسلسل ہارتا رہا لیکن آخر کار 62 سال کی عمر میں آکر وزیراعظم منتخب ہوا اس نے بعد میں ایک جگہ لکھا۔’’جدوجہد کبھی ترک نہ کریں‘ آپ کا مقصد آپ کا نصب العین چھوٹا ہو یا بڑا۔۔۔ اہم ہو یا غیراہم ۔۔۔ آپ کو خواہ کتنی ہی مرتبہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑے۔۔۔ لیکن جدوجہد کبھی ترک نہ کریں کبھی نہیں۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔‘‘ ایسی ہی ایک مشہور شخصیت کا کہنا ہے’’مجھے راتوں رات کامیاب ہونے میں بیس سال لگے۔‘‘
صرف جدوجہد کرنے والے کو ہی صحیح طور پر پتا ہوتا ہے کہ کامیابی کیلئے اس نے کس طرح خون پسینہ ایک کیا ہے لیکن کامیابی سے زیادہ لطف اندوز بھی وہی ہوتا ہے۔ سخت محنت کے بعد حاصل ہونے والی چیز کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ ناکامی یا مسترد کیے جانے کے اثرات کا سامنا کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اگر آپ زمانے کی دوڑ میں گرپڑے ہیں تو گرے ہی رہیے۔۔۔ لیٹے ہی رہیے۔۔۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ زمانہ آپ کو کچلتا ہوا آگے بڑھ جائے گا اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک نئے عزم نئے حوصلے اور نئی ہمت سے اٹھ کھڑے ہوجائیں اور دوبارہ زندگی کی دوڑ میں شامل ہوجائیے۔ زمانے سے انتقام لینے کا بھی خوبصورت طریقہ یہی ہے کہ آپ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اس میں کامیاب ہوکر دکھائیے آپ کو گرے ہی رہنا ہے یا اٹھ کھڑے ہونا ہے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
اپنی کارکردگی بہتر بنائیے: اگر آپ کے کسی کام‘ آپ کی ملازمت کی درخواست یا آپ کے کسی پراجیکٹ کو مسترد کردیا گیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ کی ذات‘ آپ کی شخصیت کو مسترد کردیا گیا ہے۔ آپ کی ذات‘ آپ کی شخصیت آپ کی صلاحیت اپنی جگہ محفوظ ہیں‘ صرف آ پ کے کام یا آپ کی کارکردگی کو مسترد کیا گیا ہے کام اور کارکردگی کو ہمیشہ بہتر سے بہتر بنایاجاسکتا ہے۔ ایک بار مسترد کیے جانے کے بعد اگر آپ بہتر تیاری کرکے جاتے ہیں توآئندہ آپ کے مسترد ہونے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔
ناکامی کو دل پر نہ لیں: اگر کسی سلسلے میں آپ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس ناکامی کیلئے اپنے آپ کو ہرگز مورد الزام نہ ٹھہرائیں اور نہ ہی اسے اپنی ذات پر حملہ تصور کریں۔ یہ دنیا کے معاملات ہیں اور دنیا کے کام اسی طرح چلتے رہے ہیں جن وجوہات کی بنا پر آپ کو مسترد کیا گیا عین ممکن ہے کہ ان پر آپ کا کوئی اختیار نہ ہو لیکن اس ناکامی پر ردعمل ظاہر کرنا آپ کے اختیار میں ہے آپ چاہیں تو یہ سوچ کر نارمل ہوسکتے ہیں کہ یہ سب چیزیں زندگی کا حصہ ہیں کبھی انسان کامیاب ہوتا ہے اور کبھی ناکام۔
ساری توانائیاں ایک ہدف پر نہ لگائیں: اگر آپ ملازمت کیلئے درخواست دے رہے ہیں تو کسی ایک ہی جگہ سے اپنی ساری امیدیں وابستہ کرکے نہ بیٹھ جائیں اور اپنی تمام توانائیاں اسی کیلئے نہ صرف کریں بلکہ کچھ نہ کچھ متبادل بھی ذہن میں رکھیں۔ اس طرح اگر آپ کو ایک جگہ ناکامی کا دھچکا برداشت کرنا پڑے گا تو کسی دوسری جگہ امید نظر آنے کی وجہ سے اس صدمے کا اثر کم محسوس ہوگا۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر آپ کو ایک راستہ بند نظر آرہا ہے تو کامیابی اس سے دوسرے راستے پر آپ کی منتظر ہو۔
اپنی زندہ دلی برقراررکھیے: زندہ دلی قدرت کا ایک ایسا عطیہ ہے جس سے ہمیں یہ بتانے میں مدد ملتی ہے کہ ہم زندگی سے لطف اندوز ہورہے ہیں‘ ہمیں اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی قدر ہے اور ہم زندگی کومحض ایک بوجھ نہیں سمجھ رہے۔ روتے بسورتے اور منہ لٹکائے رہنے والے لوگ درحقیقت کسی کو اچھے نہیں لگتے خواہ کوئی بظاہر ان کے ساتھ ہمدردی سے ہی پیش آئے اس لیے اپنی حس مزاح اور زندہ دلی کو ہر حال میں برقرار رکھنے کی کوشش کیجئے‘ اس سے آپ کو مسائل کی سنگینی کا احساس کم ہوگا اور آپ محسوس کریں گے کہ بہت سی باتیں ایسی ہیں جنہیں محض ہنس کر ٹالا جاسکتا ہے اور بہت سے معاملات ایسے ہیں جنہیں دل کا روگ بنالینا سراسر بے وقوفی ہے۔ بطور مسلمان بھی ہمارا عقیدہ ہے کہ ایک در بند ہوتا ہے تو خدا سو در کھول دیتا ہے۔ چنانچہ جب بھی آپ پر ایک دروازہ بند ہو۔ اپنے آپ کو اس خوش امیدی سے تازہ دم رکھنے کی کوشش کریں کہ کہیں نہ کہیں آپ کے کیلئے کچھ اور دروازے ضرور کھلے ہوں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں